حدیث مبارکہ

1
مصنف :
موضوع :
 - 


ایمان کی مٹھاس کے بیان میں      

حدثنا محمد بن المثنى،‏‏‏‏ قال حدثنا عبد الوهاب الثقفي،‏‏‏‏ قال حدثنا أيوب،‏‏‏‏ عن أبي قلابة،‏‏‏‏ عن أنس،‏‏‏‏ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ثلاث من كن فيه وجد حلاوة الإيمان أن يكون الله ورسوله أحب إليه مما سواهما،‏‏‏‏ وأن يحب المرء لا يحبه إلا لله،‏‏‏‏ وأن يكره أن يعود في الكفر كما يكره أن يقذف في النار ‏"‏‏

ہمیں محمد بن مثنیٰ نے یہ حدیث بیان کی، ان کو عبدالوہاب ثقفی نے، ان کو ایوب نے، وہ ابوقلابہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ناقل ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔

  زکوٰۃ دینا فرض ہے.

حدثنا حجاج،‏‏‏‏ حدثنا حماد بن زيد،‏‏‏‏ حدثنا أبو جمرة،‏‏‏‏ قال سمعت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يقول قدم وفد عبد القيس على النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا يا رسول الله إن هذا الحى من ربيعة قد حالت بيننا وبينك كفار مضر،‏‏‏‏ ولسنا نخلص إليك إلا في الشهر الحرام،‏‏‏‏ فمرنا بشىء نأخذه عنك،‏‏‏‏ وندعو إليه من وراءنا‏.‏ قال ‏"‏ آمركم بأربع،‏‏‏‏ وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله وشهادة أن لا إله إلا الله ـ وعقد بيده هكذا ـ وإقام الصلاة،‏‏‏‏ وإيتاء الزكاة،‏‏‏‏ وأن تؤدوا خمس ما غنمتم،‏‏‏‏ وأنهاكم عن الدباء والحنتم والنقير والمزفت ‏"‏‏.‏ وقال سليمان وأبو النعمان عن حماد ‏"‏ الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله ‏"‏‏.‏

ہم سے حجاج بن منہال نے حدیث بیان کی ‘ کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نصربن عمران ضبعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ آپ نے بتلایا کہ 
قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم ربیعہ قبیلہ کی ایک شاخ ہیں اور قبیلہ مضر کے کافر ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان پڑتے ہیں۔ اس لیے ہم آپ کی خدمت میں صرف حرمت کے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں (کیونکہ ان مہینوں میں لڑائیاں بند ہو جاتی ہیں اور راستے پر امن ہو جاتے ہیں) آپ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلا دیجئیے جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے قبیلہ کے لوگوں سے بھی ان پر عمل کرنے کے لیے کہیں جو ہمارے ساتھ نہیں آ سکے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کی وحدانیت کی شہادت دینے کا (یہ کہتے ہوئے) آپ نے اپنی انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا۔ نماز قائم کرنا ‘ پھر زکوٰۃ ادا کرنا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنے (کا حکم دیتا ہوں) اور میں تمہیں کدو کے تو نبی سے اور حنتم (سبزرنگ کا چھوٹا سا مرتبان جیسا گھڑا) فقیر (کھجور کی جڑ سے کھودا ہوا ایک برتن) اور زفت لگا ہوا برتن (زفت بصرہ میں ایک قسم کا تیل ہوتا تھا) کے استعمال سے منع کرتا ہوں۔ سلیمان اور ابوالنعمان نے حماد کے واسطہ سے یہی روایت اس طرح بیان کی ہے۔ الایمان باللہ شہادۃ ان لا الہٰ الا اللہ یعنی اللہ پر ایمان لانے کا مطلب لا الہٰ الا اللہ کی گواہی دینا۔

صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی مالدار ہی رہ جائے بالکل خالی ہاتھ نہ ہو بیٹھے)   ‏‏ )

ومن تصدق وهو محتاج،‏‏‏‏ أو أهله محتاج،‏‏‏‏ أو عليه دين،‏‏‏‏ فالدين أحق أن يقضى من الصدقة والعتق والهبة،‏‏‏‏ وهو رد عليه،‏‏‏‏ ليس له أن يتلف أموال الناس‏.‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من أخذ أموال الناس يريد إتلافها أتلفه الله ‏"‏‏.‏ إلا أن يكون معروفا بالصبر فيؤثر على نفسه ولو كان به خصاصة كفعل أبي بكر ـ رضى الله عنه ـ حين تصدق بماله،‏‏‏‏ وكذلك آثر الأنصار المهاجرين،‏‏‏‏ ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن إضاعة المال،‏‏‏‏ فليس له أن يضيع أموال الناس بعلة الصدقة‏.‏ وقال كعب ـ رضى الله عنه ـ قلت يا رسول الله إن من توبتي أن أنخلع من مالي صدقة إلى الله وإلى رسوله صلى الله عليه وسلم‏.‏ قال ‏"‏ أمسك عليك بعض مالك،‏‏‏‏ فهو خير لك ‏"‏‏.‏ قلت فإني أمسك  سهمي   الذي بخيبر‏.
اور جو شخص خیرات کرے کہ خود محتاج ہو جائے یا اس کے بال بچے محتاج ہوں (تو ایسی خیرات درست نہیں) اسی طرح اگر قرضدار ہو تو صدقہ اور آزادی اور ہبہ پر قرض ادا کرنا مقدم ہو گا اور اس کا صدقہ اس پر پھیر دیا جائے گا اور اس کو یہ درست نہیں کہ (قرض نہ ادا کرے اور خیرات دے کر) لوگوں (قرض خواہوں) کی رقم تباہ کر دے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کا مال (بطور قرض) تلف کرنے (یعنی نہ دینے) کی نیت سے لے تو اللہ اس کو برباد کر دے گا۔ البتہ اگر صبر اور تکلیف اٹھانے میں مشہور ہو تو اپنی خاص حاجت پر (فقیر کی حاجت کو) مقدم کر سکتا ہے۔ جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال خیرات میں دے دیا اور اسی طرح انصار نے اپنی ضرورت پر مہاجرین کی ضروریات کو مقدم کیا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو تباہ کرنے سے منع فرمایا ہے تو جب اپنا مال تباہ کرنامنع ہوا تو پرائے لوگوں کا مال تباہ کرنا کسی طرح سے جائز نہ ہو گا۔ اور کعب بن مالک نے (جو جنگ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے) عرض کی یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں اپنی توبہ کو اس طرح پورا کرتا ہوں کہ اپنا سارا مال اللہ اور رسول پر تصدق کر دوں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں کچھ تھوڑا مال رہنے بھی دے وہ تیرے حق میں بہتر ہے۔ کعب نے کہا بہت خوب میں اپنا خیبر کا حصہ رہنے دیتا ہوں۔



  علم حدیث حاصل کرنے کی حرص کے بارے میں 

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله،‏‏‏‏ قال حدثني سليمان،‏‏‏‏ عن عمرو بن أبي عمرو،‏‏‏‏ عن سعيد بن أبي سعيد المقبري،‏‏‏‏ عن أبي هريرة،‏‏‏‏ أنه قال قيل يا رسول الله،‏‏‏‏ من أسعد الناس بشفاعتك يوم القيامة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لقد ظننت يا أبا هريرة أن لا يسألني عن هذا الحديث أحد أول منك،‏‏‏‏ لما رأيت من حرصك على الحديث،‏‏‏‏ أسعد الناس بشفاعتي يوم القيامة من قال لا إله إلا الله،‏‏‏‏ خالصا من قلبه أو نفسه ‏" ‏‏.

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے سلیمان نے عمرو بن ابی عمرو کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ سعید بن ابی سعید المقبری کے واسطے سے بیان کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی۔ سنو! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا، جو سچے دل سے یا سچے جی سے ’’ لا الہٰ الا اللہ ‘‘ کہے گا۔

آمین کہنے کی فضیلت

حدثنا عبد الله بن يوسف،‏‏‏‏ أخبرنا مالك،‏‏‏‏ عن أبي الزناد،‏‏‏‏ عن الأعرج،‏‏‏‏ عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا قال أحدكم آمين‏.‏ وقالت الملائكة في السماء آمين‏.‏ فوافقت إحداهما الأخرى،‏‏‏‏ غفر له ما تقدم من ذنبه ‏"‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے آمین کہے اور فرشتوں نے بھی اسی وقت آسمان پر آمین کہی۔ اس طرح ایک کی آمین دوسرے کے آمین کے ساتھ مل گئی تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
اس بارے میں کہ غسل سے پہلے وضو کر لینا چاہیے
حدثنا عبد الله بن يوسف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرنا مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن هشام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عائشة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا اغتسل من الجنابة بدأ فغسل يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم يتوضأ كما يتوضأ للصلاة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم يدخل أصابعه في الماء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيخلل بها أصول شعره ثم يصب على رأسه ثلاث غرف بيديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم يفيض الماء على جلده كله‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں مالک نے ہشام سے خبر دی، وہ اپنے والد سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تو آپ پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر اسی طرح وضو کرتے جیسا نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیا کرتے تھے۔ پھر پانی میں اپنی انگلیاں داخل فرماتے اور ان سے بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے۔ پھر اپنے ہاتھوں سے تین چلو سر پر ڈالتے پھر تمام بدن پر پانی بہا لیتے۔ 

میت کی طرف سے حج اور نذر ادا کرنا 


حدثنا موسى بن إسماعيل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا أبو عوانة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي بشر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سعيد بن جبير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن امرأة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ من جهينة جاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت إن أمي نذرت أن تحج،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلم تحج حتى ماتت أفأحج عنها قال ‏"‏ نعم‏.‏ حجي عنها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أرأيت لو كان على أمك دين أكنت قاضية اقضوا الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فالله أحق بالوفاء ‏"‏‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح شکری نے بیان کیا، ان سے ابوبشر جعفر بن ایاس نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکیں اور ان کا انتقال ہو گیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے تو حج کر۔ کیا تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں؟ اللہ تعالیٰ کا قرضہ تو اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرنا بہت ضروری ہے۔
قیامت کی نشانیاں 


حدثنا أبو اليمان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرنا شعيب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرنا أبو الزناد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبد الرحمن الأعرج،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي هريرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تقوم الساعة حتى يقبض العلم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وتكثر الزلازل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ويتقارب الزمان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وتظهر الفتن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ويكثر الهرج ـ وهو القتل القتل ـ حتى يكثر فيكم المال فيفيض ‏"‏‏.

ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد (عبداللہ بن ذکوان) نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزر ے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور ہرج کی کثرت ہو جائے گی اور ہرج سے مراد قتل ہے۔ قتل اور تمہارے درمیان دولت و مال کی اتنی کثرت ہو گی کہ وہ ابل پڑے گا۔

عیدالفطر میں نماز کے لیے جانے سے پہلے کچھ کھا لینا
حدثنا محمد بن عبد الرحيم،‏‏‏‏ حدثنا سعيد بن سليمان،‏‏‏‏ قال حدثنا هشيم،‏‏‏‏ قال أخبرنا عبيد الله بن أبي بكر بن أنس،‏‏‏‏ عن أنس،‏‏‏‏ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يغدو يوم الفطر حتى يأكل تمرات‏.‏ وقال مرجى بن رجاء حدثني عبيد الله قال حدثني أنس عن النبي
   صلى الله عليه وسلم ويأكلهن وترا‏.
ہم سے محمد بن عبد الرحیم نے بیان کیا کہ ہم کو سعید بن سلیمان نے خبر دی کہ ہمیں ہشیم بن بشیر نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن ابی بکر بن انس نے خبر دی اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے، آپ نے بتلایا کہ 
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نہ نکلتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند کھجوریں نہ کھا لیتے اور مرجی بن رجاء نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر یہی حدیث بیان کی کہ آپ طاق عدد کھجوریں کھاتے تھے۔ 


حضرت جبرائیل علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان، اسلام، احسان اور قیامت کے علم کے بارے میں 
  پوچھنا


حدثنا مسدد،‏‏‏‏ قال حدثنا إسماعيل بن إبراهيم،‏‏‏‏ أخبرنا أبو حيان التيمي،‏‏‏‏ عن أبي زرعة،‏‏‏‏ عن أبي هريرة،‏‏‏‏ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم بارزا يوما للناس،‏‏‏‏ فأتاه جبريل فقال ما الإيمان قال ‏"‏ الإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وبلقائه ورسله،‏‏‏‏ وتؤمن بالبعث ‏"‏‏.‏ قال ما الإسلام قال ‏"‏ الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به،‏‏‏‏ وتقيم الصلاة،‏‏‏‏ وتؤدي الزكاة المفروضة،‏‏‏‏ وتصوم رمضان ‏"‏‏.‏ قال ما الإحسان قال ‏"‏ أن تعبد الله كأنك تراه،‏‏‏‏ فإن لم تكن تراه فإنه يراك ‏"‏‏.‏ قال متى الساعة قال ‏"‏ ما المسئول عنها بأعلم من السائل،‏‏‏‏ وسأخبرك عن أشراطها إذا ولدت الأمة ربها،‏‏‏‏ وإذا تطاول رعاة الإبل البهم في البنيان،‏‏‏‏ في خمس لا يعلمهن إلا الله ‏"‏‏.‏ ثم تلا النبي صلى الله عليه وسلم ‏ {‏ إن الله عنده علم الساعة‏}‏ الآية‏.‏ ثم أدبر فقال ‏"‏ ردوه ‏"‏‏.‏ فلم يروا شيئا‏.‏ فقال ‏"‏ هذا جبريل جاء يعلم الناس دينهم ‏"‏‏.‏ قال أبو عبد الله جعل ذلك كله من الإيمان 
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو ابوحیان تیمی نے ابوزرعہ سے خبر دی، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ
ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ اور اس کے فرشتوں کے وجود پر اور اس (اللہ) کی ملاقات کے برحق ہونے پر اور اس کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لاؤ۔ پھر اس نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب دیا کہ اسلام یہ ہے کہ تم خالص اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔ اور زکوٰۃ فرض ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔ پھر اس نے احسان کے متعلق پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ تو سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا (البتہ) میں تمہیں اس کی نشانیاں بتلا سکتا ہوں۔ وہ یہ ہیں کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی اور جب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے (دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے) مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے (یاد رکھو) قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے کہ وہ کب ہو گی (آخر آیت تک) پھر وہ پوچھنے والا پیٹھ پھیر کر جانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لاؤ۔ لوگ دوڑ پڑے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جبرائیل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔ امام ابوعبداللہ بخاری فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باتوں کو 
ایمان ہی قرار دیا ہے۔

اس بارے میں کہ شب معراج میں نماز کس طرح فرض ہوئی؟ 


حدثنا يحيى بن بكير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا الليث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن يونس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أنس بن مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال كان أبو ذر يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ فرج عن سقف بيتي وأنا بمكة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فنزل جبريل ففرج صدري،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم غسله بماء زمزم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأفرغه في صدري ثم أطبقه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء الدنيا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما جئت إلى السماء الدنيا قال جبريل لخازن السماء افتح‏.‏ قال من هذا قال هذا جبريل‏.‏ قال هل معك أحد قال نعم معي محمد صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال أرسل إليه قال نعم‏.‏ فلما فتح علونا السماء الدنيا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا رجل قاعد على يمينه أسودة وعلى يساره أسودة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إذا نظر قبل يمينه ضحك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا نظر قبل يساره بكى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح‏.‏ قلت لجبريل من هذا قال هذا آدم‏.‏ وهذه الأسودة عن يمينه وشماله نسم بنيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأهل اليمين منهم أهل الجنة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والأسودة التي عن شماله أهل النار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا نظر عن يمينه ضحك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا نظر قبل شماله بكى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حتى عرج بي إلى السماء الثانية فقال لخازنها افتح‏.‏ فقال له خازنها مثل ما قال الأول ففتح ‏"‏‏.‏ قال أنس فذكر أنه وجد في السموات آدم وإدريس وموسى وعيسى وإبراهيم ـ صلوات الله عليهم ـ ولم يثبت كيف منازلهم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ غير أنه ذكر أنه وجد آدم في السماء الدنيا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإبراهيم في السماء السادسة‏.‏ قال أنس فلما مر جبريل بالنبي صلى الله عليه وسلم بإدريس قال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح‏.‏ فقلت من هذا قال هذا إدريس‏.‏ ثم مررت بموسى فقال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح‏.‏ قلت من هذا قال هذا موسى‏.‏ ثم مررت بعيسى فقال مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح‏.‏ قلت من هذا قال هذا عيسى‏.‏ ثم مررت بإبراهيم فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح‏.‏ قلت من هذا قال هذا إبراهيم صلى الله عليه وسلم ‏"‏‏.‏ قال ابن شهاب فأخبرني ابن حزم أن ابن عباس وأبا حبة الأنصاري كانا يقولان قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ثم عرج بي حتى ظهرت لمستوى أسمع فيه صريف الأقلام ‏"‏‏.‏ قال ابن حزم وأنس بن مالك قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ففرض الله على أمتي خمسين صلاة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فرجعت بذلك حتى مررت على موسى فقال ما فرض الله لك على أمتك قلت فرض خمسين صلاة‏.‏ قال فارجع إلى ربك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإن أمتك لا تطيق ذلك‏.‏ فراجعت فوضع شطرها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فرجعت إلى موسى قلت وضع شطرها‏.‏ فقال راجع ربك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإن أمتك لا تطيق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فراجعت فوضع شطرها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فرجعت إليه فقال ارجع إلى ربك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإن أمتك لا تطيق ذلك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فراجعته‏.‏ فقال هي خمس وهى خمسون،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا يبدل القول لدى‏.‏ فرجعت إلى موسى فقال راجع ربك‏.‏ فقلت استحييت من ربي‏.‏ ثم انطلق بي حتى انتهى بي إلى سدرة المنتهى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وغشيها ألوان لا أدري ما هي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أدخلت الجنة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا فيها حبايل اللؤلؤ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا ترابها المسك ‏"‏‏.‏

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے انس بن مالک سے، انھوں نے فرمایا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پھر انھوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا، ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا، جی ہاں! پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا، آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو (رنج سے) روتے ہیں۔ پھر جبرائیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ حضرت انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو موجود پایا۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادریس علیہ السلام پر گزرے۔ تو انھوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا، انھوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا۔ انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے جبرائیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی (جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی) ابن حزم نے (اپنے شیخ سے) اور انس بن مالک نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انھوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی، پھر میں باربار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں (عمل میں) پانچ ہیں اور (ثواب میں) پچاس (کے برابر) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل مجھے سدرۃالمنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔


۔۔۔ جاری 

1 comment:

  1. اللهم صلي على نبينا وحبيبنا محمد عليه افضل الصلاة واتم التسليم



    زادك الله علما وعملا ونفع بك الامه وفقك للخير دائما

    ReplyDelete

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


اوپرجائیں