حدیث مبارکہ

0
مصنف :
موضوع :
 - 
تیمم میں ایک ہی دفعہ مٹی پر ہاتھ مارنا کافی ہے

حدثنا محمد بن سلام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرنا أبو معاوية،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الأعمش،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن شقيق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال كنت جالسا مع عبد الله وأبي موسى الأشعري فقال له أبو موسى لو أن رجلا أجنب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلم يجد الماء شهرا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أما كان يتيمم ويصلي فكيف تصنعون بهذه الآية في سورة المائدة ‏ {‏ فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا‏}‏ فقال عبد الله لو رخص لهم في هذا لأوشكوا إذا برد عليهم الماء أن يتيمموا الصعيد‏.‏ قلت وإنما كرهتم هذا لذا قال نعم‏.‏ فقال أبو موسى ألم تسمع قول عمار لعمر بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة فأجنبت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلم أجد الماء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فتمرغت في الصعيد كما تمرغ الدابة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ إنما كان يكفيك أن تصنع هكذا ‏"‏‏.‏ فضرب بكفه ضربة على الأرض ثم نفضها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم مسح بها ظهر كفه بشماله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أو ظهر شماله بكفه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم مسح بهما وجهه فقال عبد الله أفلم تر عمر لم يقنع بقول عمار وزاد يعلى عن الأعمش عن شقيق كنت مع عبد الله وأبي موسى فقال أبو موسى ألم تسمع قول عمار لعمر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثني أنا وأنت فأجنبت فتمعكت بالصعيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرناه فقال ‏"‏ إنما كان يكفيك هكذا ‏"‏‏.‏ ومسح وجهه وكفيه واحدة
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہمیں ابومعاویہ نے خبر دی اعمش سے، انھوں نے شقیق سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے؟ شقیق کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے (اور نماز موقوف رکھے) ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر سورۃ المائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا۔ انھوں نے کہا ہاں۔ پھر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا آپ کو حضرت عمار کا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی، لیکن پانی نہ ملا۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا۔ عبداللہ نے اس کا جواب دیا کہ آپ عمر کو نہیں دیکھتے کہ انھوں نے عمار کی بات پر قناعت نہیں کی تھی۔ اور یعلیٰ ابن عبید نے اعمش کے واسطہ سے شقیق سے روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابوموسیٰ کی خدمت میں تھا اور ابوموسیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ نے عمر سے عمار کا یہ قول نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور آپ کو بھیجا۔ پس مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت حال کے متعلق ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا۔
Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


اوپرجائیں