حدیث مبارکہ

0
مصنف :
موضوع :
 - 
لوگوں میں صلح کرانے کا ثواب

حدثنا سعيد بن أبي مريم،‏‏‏‏ حدثنا أبو غسان،‏‏‏‏ قال حدثني أبو حازم،‏‏‏‏ عن سهل بن سعد ـ رضى الله عنه أن أناسا،‏‏‏‏ من بني عمرو بن عوف كان بينهم شىء،‏‏‏‏ فخرج إليهم النبي صلى الله عليه وسلم في أناس من أصحابه يصلح بينهم،‏‏‏‏ فحضرت الصلاة،‏‏‏‏ ولم يأت النبي صلى الله عليه وسلم،‏‏‏‏ فجاء بلال،‏‏‏‏ فأذن بلال بالصلاة،‏‏‏‏ ولم يأت النبي صلى الله عليه وسلم فجاء إلى أبي بكر فقال إن النبي صلى الله عليه وسلم حبس،‏‏‏‏ وقد حضرت الصلاة فهل لك أن تؤم الناس فقال نعم إن شئت‏.‏ فأقام الصلاة فتقدم أبو بكر،‏‏‏‏ ثم جاء النبي صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف،‏‏‏‏ حتى قام في الصف الأول،‏‏‏‏ فأخذ الناس بالتصفيح حتى أكثروا،‏‏‏‏ وكان أبو بكر لا يكاد يلتفت في الصلاة،‏‏‏‏ فالتفت فإذا هو بالنبي صلى الله عليه وسلم وراءه فأشار إليه بيده،‏‏‏‏ فأمره يصلي كما هو،‏‏‏‏ فرفع أبو بكر يده،‏‏‏‏ فحمد الله،‏‏‏‏ ثم رجع القهقرى وراءه حتى دخل في الصف،‏‏‏‏ وتقدم النبي صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس،‏‏‏‏ فلما فرغ أقبل على الناس فقال ‏"‏ يا أيها الناس ما لكم إذا نابكم شىء في صلاتكم أخذتم بالتصفيح،‏‏‏‏ إنما التصفيح للنساء،‏‏‏‏ من نابه شىء في صلاته فليقل سبحان الله،‏‏‏‏ فإنه لا يسمعه أحد إلا التفت،‏‏‏‏ يا أبا بكر ما منعك حين أشرت إليك لم تصل بالناس ‏"‏‏.‏ فقال ما كان ينبغي لابن أبي قحافة أن يصلي بين يدى النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (قباء کے) بنو عمرو بن عوف میں آپس میں کچھ تکرار ہو گئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان کے یہاں ان میں صلح کرانے کے لیے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا، لیکن آپ تشریف نہ لا سکے۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر اذان دی، ابھی تک چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے تھے اس لیے وہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہدایت کے مطابق) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہیں رک گئے ہیں اور نماز کا وقت ہو گیا ہے، کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو۔ اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کی تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے (نماز کے درمیان) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ پہنچے۔ لوگ باربار ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے۔ مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے (مگر جب باربار ایسا ہوا تو) آپ متوجہ ہوئے اور معلوم کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پیچھے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے انہیں حکم دیا کہ جس طرح وہ نماز پڑھا رہے ہیں، اسے جاری رکھیں۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد بیان کی اور الٹے پاؤں پیچھے آ گئے اور صف میں مل گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ہدایت کی کہ لوگو! جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگتے ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ مارنا عورتوں کے لیے ہے (مردوں کو) جس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے تو اسے سبحان اللہ کہنا چاہئے، کیونکہ یہ لفظ جو بھی سنے گا وہ متوجہ ہو جائے گا۔ اے ابوبکر! جب میں نے اشارہ بھی کر دیا تھا تو پھر آپ لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے؟ انہوں نے عرض کیا، ابوقحافہ کے بیٹے کے لیے یہ بات مناسب نہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے نماز پڑھائے۔


حدثنا مسدد،‏‏‏‏ حدثنا معتمر،‏‏‏‏ قال سمعت أبي أن أنسا ـ رضى الله عنه ـ قال قيل للنبي صلى الله عليه وسلم لو أتيت عبد الله بن أبى‏.‏ فانطلق إليه النبي صلى الله عليه وسلم وركب حمارا،‏‏‏‏ فانطلق المسلمون يمشون معه،‏‏‏‏ وهى أرض سبخة،‏‏‏‏ فلما أتاه النبي صلى الله عليه وسلم فقال إليك عني،‏‏‏‏ والله لقد آذاني نتن حمارك‏.‏ فقال رجل من الأنصار منهم والله لحمار رسول الله صلى الله عليه وسلم أطيب ريحا منك‏.‏ فغضب لعبد الله رجل من قومه فشتما،‏‏‏‏ فغضب لكل واحد منهما أصحابه،‏‏‏‏ فكان بينهما ضرب بالجريد والأيدي والنعال،‏‏‏‏ فبلغنا أنها أنزلت ‏ {‏ وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما‏}‏‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، اگر آپ عبداللہ بن ابی (منافق) کے یہاں تشریف لے چلتے تو بہتر تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے یہاں ایک گدھے پر سوار ہو کر تشریف لے گئے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم پیدل آپ کے ہمراہ تھے۔ جدھر سے آپ گزر رہے تھے وہ شور زمین تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے یہاں پہنچے تو وہ کہنے لگا ذرا آپ دور ہی رہئے آپ کے گدھے کی بو نے میرا دماغ پریشان کر دیا ہے۔ اس پر ایک انصاری صحابی بولے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے۔ عبداللہ (منافق) کی طرف سے اس کی قوم کا ایک شخص اس صحابی کی اس بات پر غصہ ہو گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ پھر دونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہو گئے اور ہاتھا پائی، چھڑی اور جوتے تک نوبت پہنچ گئی۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔


Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


اوپرجائیں