جاننا ضروری ہے

1
مصنف :
موضوع :
 - 
مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنے سے متعلق

سوال : کیا جناز گاہ کو مسجد بنا کر اس میں مدرسہ و مسجد اور جناز گاہ کو جمع کیا جاسکتا ہے نیز مسجد میں نماز 

جنازہ کی ادائیگی کے بارے میں وضاحت فرمائیں؟


جواب : جنازہ گاہ میں پانچوں نمازیں ادا کرنا یا مدرسہ وغیرہ کا اجراء، اگر صحیح العقیدہ مسلمانوں کی طرف سے

 ہے تو بہتر ہے۔ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ البتہ نماز جنازہ ادا کرتے وقت میت کی چارپائی رکھنے کے

 لئے اگر مسجد سے باہر جگہ بنائی جائے اور باقی نمازی مسجد میں بھی کھڑے ہوجائیں تو حرج نہیں۔ میت کو 

مسجد سے باہر اس لئے رکھتے ہیں کہ مسجد کی تلویث نہ ہو۔ اگر تلویث مسجد کا خطرہ نہیں۔ میت صحیح حالت 

میں ہے تو مسجد میں میت رکھ کر نماز جنازہ ادا کرنا بھی جائز ہے اور سنت سے ثابت ہے۔ اگر ایک عبادت گاہ 

سے دیگر دینی کام بھی بلا کسی شرعی خرابی کے لئے جانے ممکن ہوں تو ضرور لیں، شرعاً پوری گنجائش ہے۔

حدیث پاک سے

عن ابی سلمة بن عبدالرحمن ان عائشة لما توفی سعد بن ابی وقاص (رضی الله عنه) قالت ادخلوا به المسجدا صلی عليه فانکر ذلک عليها فقالت والله لقد صلی رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم علی ابنی بيضاء فی المسجد سهيل واخيه.

’’
ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وفات 

ہوئی تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا۔ انہیں مسجد میں لاؤ تاکہ میں (بھی) ان پر نماز جنازہ پڑھ 

سکوں۔ اس پر انکار کیا گیا۔ آپ رضی اللہ عنھا نے فرمایا، خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے

 بیضاء کے دو بیٹوں سہیل اور ان کے بھائی پر مسجد میں نماز جنازہ پڑھی ہے‘‘۔ (مسلم)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اشعہ اللمعات میں لکھا ہے کہ مسجد میں جنازہ مکروہ تنزیہی ہے۔

دوسری روایت میں ہے کہ تمام ازواج مطہرات کے مطالبہ پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد میں ادا 

کیا گیا، ان عصمت مآبوں کو جب خبر پہنچی کہ لوگوں نے اسے برا کہا اور کہا کہ جنازے مسجدوں میں داخل 

نہیں کئے جاتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :

مااسرع الناس الی ان اجيبوا مالا علم لهم به عابوا علينا ان يمر بجنازه فی المسجد وما صلی رسول الله علی سهيل بن 

بيضاء الافی جوف المسجد.

’’
لوگ جس بات کو جانتے نہیں کتنی جلدی اس پر عیب لگا دیتے ہیں۔ ہم پر عیب لگا کہ مسجد میں جنازہ لایا گیا

 ہے۔ حالانکہ سہیل بن بیضاء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں ہی تو نماز جنازہ ادا فرمایا تھا‘‘۔ 

(مسلم ص 333 ج 1)

٭ ایک روایت میں ہے جب میت مسجد سے باہر ہو اور لوگ مسجد کے اندر، تو نماز مکروہ نہیں۔ اگر ممانعت 

کی علت موجود ہو یعنی تلویث مسجد کا خوف ہو، تو پھر اس صورت میں مکروہ نہ ہوگی، جب میت مسجد سے باہر 

ہو۔ صرف جنازہ یا کچھ نمازی بھی۔

یہی بات حق ہے کہ میت کی حالت غیر ہو مثلاً جسم سے خون، پیپ، پانی وغیرہ نکل رہا ہے یا کسی اور طرح 

سے تلویث مسجد کا ڈر ہو۔ مثلاً کئی دن گذر چکے ہیں اور لاش سے تعفن و بدبو آرہی ہے تو میت ہرگز مسجد میں

 نہ لائی جائے اور مسجد سے باہر رکھ کر جنازہ ادا کیا جائے خواہ نمازی باہر ہوں خواہ اندر اور اگر میت کی حالت

 نارمل ہے اور تلویث مسجد کا کوئی امکان نہیں تو نماز جنازہ بلا کراہت مسجد میں جائز ہے۔ مسلمان قابل احترام 

ہے، زندہ ہو یا مردہ۔ ہاں اگر اس کا جسم صاف نہ ہو تو مسجد میں اس کا آنا جائز نہیں خواہ زندہ ہو جیسے جنبی، 

حائض، نفساء یا وہ میت جس کے جسم سے کچھ نکلتا ہو، یا بدبو آنے لگے۔

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

1 comment:

  1. وفقك الله لما فيه الخير والصلاح وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى ...

    ReplyDelete

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


اوپرجائیں